انتخاب کلام نیرمدنی


غزل
وجہ وجود کون  و  مکاں  ہوں  سنا  تو  ہے
انسان  مستحق  کرم   خاص   کا   تو    ہے
ہر چند   ہم   میں   سوز خلیلی   نہیں   رہا
شعلوں  سے  کھیلنے کا  مگر  حوصلہ  تو  ہے
انکو  بٹھا  کے سامنے سجدہ کریں  گے  ہم
اہل   حرم    کا    ردعمل  دیکھنا    تو   ہے
دیکھیں کہ اور جبر کا سیلاب کیا  دکھا ئے
دل   اہل   اختیار   کا   ڈوبا   ہوا   تو  ہے
گرد    غلیظ   وہم  مسلسل   بھی     دیکھئے
آئینہ،  آئینہ   صفت   ذات   کا   تو  ہے
دامان   جبرئیل  امیں  پر   نہ  آنچ آئے
نیر  سفال   خام   سے   شعلہ  اٹھا  تو ہے


جناب نیر مدنی کی مشہور نظم 'سر شہادت'
سر شہادت
نیر مدنی
سلام اے کربلا کے نور اے سرچشمۂ ایماں
سلام  اے رحمتہ اللعالمیں کے نیر تاباں
سلام اے سیدہ کی گود کے چاند اے قمر پیکر
سلام اے ھاشمی سردار اے لخت دل حیدر
سلام  اے  راکب  دوش  محمد  سید  و  سرور
سلام اے درج محبوب خدا کے دلنشیں گوھر
سلام  اے  شمع   بزم  اولیاء   تنویر   رحما نی
سلام  اے  نور ربانی  سلام اے یوسف ثانی
سلام  اے  تاجدار  کربلا   اے  ہادئ  ملت
سلام اے مخزن رفعت، سلام اے جلوۂ رحمت

سلام اے روح تسلیم رضا اے د‏ین کے سلطاں
تری  عظمت  پہ نیر  کی  متاع  جسم و جاں قرباں

ہمارے سامنے ہے زندگی مردان عالم کی
دلیران زمانہ کی شجاعان مکرم کی
درخشاں صفحۂ تاریخ پر ہیں واقعات انکے
زباں زد ہورہے ہیں قصۂ دور حیات انکے
مگر تاریخ میں جس وقت تیرا نام آتا ہے
زمانہ تیری عظمت پر ادب سے سر جھکاتا ہے
وہ میدان بلا جو آجتک مشہور عالم ہے
شہادت دے رہا ہے تو مجاھد ہے معظم ہے
تجھے شوکت نہ تھی مطلوب تو خود وجہ شوکت تھا
تجھے شاہی سے تھا مطلب نہ کچھہ دنیا کی رفعت سے
کہ اخلاق نبوت تھے نمایاں تیری سیرت سے
دل اعدائے دیں میں صرف یہ کانٹا کھٹکتا تھا
کہ تیری ذات سے دین خدا کا بول بالا تھا

ترے اتمام حجت سے پتہ چلتا ہے دنیا کو
تری سیرت پیام مرگ تھی انفاس اعداء کو

حرم کا قافلہ کرب و بلا میں آکے جب ٹھہرا
کیا نور خدا کا ظلم کی شمشیر نے حلقا
یزیدی فوج نے قبضہ کیا پانی کی چادر پر
ہوئی نہر فرات آشفتۂ و حیراں مقدر پر
کہا اے مالک ارض و سما اے خالق د‏نیا
یہ میرا ہی مقدر تھا کہ میں ہوں خلق میں رسوا
اگر ایسا ہی تھا مجھکو نہ یہ عظمت ملی ہوتی
مجھے اک سرزمین خشک کی قسمت ملی ہوتی
امام دوجہاں سے ہے مجھے شرمندگی مولا
مرے ساحل پہ تشنہ لب رہیں مولا ترے پیارے
نہ دیکھے جائنگے مجھہ سے یہ درد انگیز نظارے

اگر تیرا اشارہ ہو تو اعداء کو فنا کردوں
اجازت دے کہ ان کو غرق سیلاب بلا کردوں

ندا آئی کہ میرا راز پنہاں تو نہیں سمجھی
رموزامتیاز کفروایماں تو نہیں سمجھی
حسین ابن ملی چاہیں تو صحراآب ہوجائے
ہر اک ذرہ کا دامن حلقۂ گرداب ہوجائے
یہ تپتی ریگ یہ صحرا ابھی گلزار بن جائے
شعاعوں کی تمازت ابر گوھر بار بن جائے
مگر پھر عظمت ایمان مسلم کون سمجھے گا
خدا کے واسطے ہے جان مسلم کون سمجھے گا
شہادت اہلبیت مصطفے کی راز ملت ہے
جفائے کفر ہی پیغام سوزوسازملت ہے
یہ ایسا سانحہ ہے دل میں جس سے روشنی ہوگی
شہادت ہی حسین ابن علی کی زندگی ہوگی
مجاہد جنگ میں اسلام کی عظمت بڑھا دینگے
حسین ابن علی کو یاد کرکے سر کٹا دینگے

مسلماں پھر مسلماں ہیں کوئی کافر نہ بھولے گا
شہید راہ حق کا سجد‏ۂ آخر نہ بھولے گا

معروف عالم اورشاعرجناب سید محمد رضی کا خط جس میں جناب رضی نے 'سر شہادت' پر سیرحاصل تبصرہ کیا ہے۔

باسمہ سبحانہ
 جناب نیر مدنی کی نظم "سر شہادت" میری نظر سے گذری جس میں فلسفہ شہادت اور عظمت حسینی کو موضوع قرار دیا گیا ہے ۔ شاعر نے اس نظم میں جس خوش اسلوبی کے ساتھہ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے وہ بہت زیادہ قابل مدح ہے۔

عظمت شہادت حسینی تو ایک ایسی مسلم حقیقت ہے جس میں نہ صرف مسلمان بلکہ دوسرے بھی دو رایئں نہیں رکھتے اسلئے کمال شعری سے اسکی عظمت و بلندی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ خود شاعر یا مقالہ نگار ہی کی قابلیت و بلندئ فکر کا ثبوت ملتا ہے کہ اس نے اس شہادت عظمی کے رموز کو کہاںتک سمجھا ۔

اس نظم کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر نے اس قربانی کو محض ایک اتفاقی حادثہ نہیں قرار دیا بلکہ اسکی نظر میں یہ امام حسین علیہ السلام کا جنس بشری کیلئے ایک اصلاحی اقدام تھا جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے اپنی مثال نہیں رکھتا اور زمانہ کے کسی حلقے میں بھی اسکی افادی حیثیت میں کمی نہیں ہوسکتی۔

میں جناب نیر مدنی کے کمال شعری اور بلندئ فکرونظرکا اعتراف کرتا ہوں اور حہاں تک میں دیکھہ سکا ہوں امید کرتا ہوں کہ ادب دوست حضرات اسکو ضرور پسند فرمایئں گے۔

سید محمد رضی نبیرہ نجم الملت
152 پیر الہی بخش کالونی ۔ کراچی

.........................................................................