Saturday, August 12, 2017

نیّر مدنی کا فارسی کلام

نیّر مدنی کا فارسی کلام 



کرد بر من نظرے شوخ نگاہے عجبے
بر لبم وجد کناں آمدہ آہے عجبے



منزلم زیر قدم شوق ہمہ برق و صبا
خضر راہے عجبے، رہرو راہے عجبے



کعبہ از جلوہ او،  دیر ہم از جلوہ  او
دیں پناہے عجبے،  کفر  پناہے عجبے



دل پریشاں  بہ طلب،  او بہ نہانخانہ دل
میہمانے عجبے، چشم  براہےعجبے



این گرفتار تپش، او  بہ  ادا  و  غمزہ
نیم  بسمل عجبے، نیم  نگاہے عجبے



نگہم  بر  رخ  محبوب  و  لبم  وقف  درود
این  گناہے عجب  و  طرز گناہے عجبے



دل گرفتار غم  و غم  بہ نگہبانئ  دل
ناتوانے عجبے،  پشت  پناہے عجبے



حکم  بربادئ  نیّرشد  و  نیّر  مسرور
داد  خواہے عجبے، آمد  و  شاہے عجبے

Friday, August 11, 2017

نیر مدنی: ڈاکٹر سید سعید احمد کی کتاب "شہر ادب کانپور" سے مضمون

نیر مدنی
(ڈاکٹر سید سعید احمد کی کتاب "شہر ادب کانپور" سے)


1935 کا زمانہ تھا تحریک آزادی اپنے شباب پر تھی۔ لکھنؤ میں ایک کل ہند مشاعرہ زیر صدارت مسز سروجنی نایئڈو منعقد ہوا جس میں مولانا حسرت موہانی، اصغر گونڈوی اور دوسرے شعراء شریک تھے۔ اس مشاعرے میں حضرت نیر مدنی بھی جو ابھی محض مبتدی تھے، مدعو کرلئے گئے تھے۔ ان کی ایک نظم "غلامی" اس دور میں بڑی شہرت پا گئی تھی۔ مس سروجنی نایئڈو کی فرمائش پر نیر صاحب نے یہ نظم سنائی تو حاضرین نے بہت پسند کی۔ جب نیر صاحب نظم سنا کر جانے لگے تو اصغر گونڈوی نےپوچھا "میاں کس کے شاگرد ہو؟" تو نیّر نے برجستہ کہا "حضور آپ ہی کا شاگرد ہوں"۔حضرت اصغر کے برابر میں مولانا حسرت موہانی بھی تشریف فرما تھے۔ انہوں نے حیرت سے اس نوجوان کو دیکھا۔ اصغر نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا "میاں مجھےتو یاد نہیں پڑتا کہ تم کبھی اصلاح کی غرض سے میرے پاس آئے ہو؟" نیّرصاحب نے جواب دیا "حضور آپ درست فرماتے ہیں دراصل میں آپکے رنگ میں غزل کہنے کی کوشش کرتا ہوں اس لئے میں خود کو آپ کا معنوی شاگرد سمجھتا ہوں ورنہ اور کوئی میرا استاد نہیں ہے۔ اس جواب پر مولانا حسرت موہانی بڑے محظوظ ہوئے اور اصغر گونڈوی سے مخاطب ہوکر بولے "بسم اللہ۔ ایسے شاگرد کہاں نصیب ہوتے ہیں"۔ اصغر صاحب نے حسرت موہانی کے اس جملے کے بعد سکوت فرمایا اور نیر صاحب اس دن سے خود کو اصغر گونڈوی کا باقاعدہ شاگرد کہنے لگے اور شاعری میں ان کے اتباع کو حرز جاں بنالیا۔

نیّرمدنی نے 1933ء سے شعر کہنا شروع کئے اور 1983ء میں انتقال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ان کا یہ پچاس سالہ ادبی سفر بڑے بڑے شعراء کے درمیان میں گذرا۔ شاعری کے آفتاب و ماہتاب کے درمیان ان کی سخنوری کا چراغ بھی پورے آب و تاب سے دمکتا رہا اور شائقین ادب سے داد سخن لیتا رہا۔ وہ غالب کے بڑے مداح تھے۔ اقبال، اصغر، جگر اور فانی سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ غالب کا علو، اقبال کی آفاقیت، اصغر کا لہجہ  اور پاکیزہ خیالی، جگر کی مستانہ روی اور فانی کا آرٹ، یہ ہیں وہ خصوصیات جنہوں نے مجھے ان کا گرویدہ بنادیا ہے۔۔ چنانچہ ان کی شاعری میں یہی رنگ نمایاں ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک شعر میں مولانا روم اور حضرت امیر خسرو سے بھی کسب فیض کا اظہار کیا ہے:
مرے سبوچۂ شعروغزل میں ہے نیّر 
   شراب میکدۂ  پیر رومی  و  خسرو

حضرت مولانا نیّرمدنی کا اصلی نام سید محمد مدنی تھا۔ آپ کے والد حضرت مولانا سید محمد حسین بہ سلسلہ ملازمت ترک سکونت کرکے الہ آباد سے کانپور آگئے تھے۔ اس وقت نیّرصاحب کی عمر تقریبا دس سال تھی۔ نیّر صاحب نے ابتدائی تعلیم تو اپنے والد سے حاصل کی، لیکن دین کی اعلی تعلیم کے لئے دیو بند تشریف لے گئے اور وہاں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی زیر نگرانی درس نظامی کی تکمیل کی اور 1932ء میں کانپور کی ایک مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دینے لگے۔ قیام پاکستان کے بعد کانپور سے کراچی ہجرت کی اور یہاں بھی مسند رشدو ہدایت پر فائز رہے۔
1933ء میں آپ نے پہلا طرحی مشاعرہ پڑھا جس کا ایک شعر یہ تھا:

پایا مجاز ہی سے حقیقت کا راستہ

مجھ کو مذاق عشق نے انساں بنادیا

نیّر مدنی کی شاعری عارفانہ رنگ میں ڈوب کر کی گئی ہے وہ دین پس منظر کی وجہ سے عشق حقیقی کا اظہار نہایت خوبصورتی سے کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ محض معرفت کی یکسانیت میں گرفتار رہے۔ انہوں نے ہر موضوع اور ہر رنگ میں شعر کہے اور بڑی کامیاب غزلیں کہیں۔ مندرجہ ذیل اشعارسے نیّر کے انداز شاعری پر بخوبی روشنی پڑتی ہے۔
کام کرجاتے ہیں جس دم حادثات ۔۔۔ منکشف ہوتے ہیں اسرار حیات
غم بھی ہے منجملۂ ارباب عیش ۔۔۔ ہوسکے تو بخش دے فرقت کی رات
عشق کی سادہ مزاجی دیکھئے ۔۔۔ پوچھتا ہوں ان سے اپنے دل کی بات
دل میں نیّر وہ نہیں تو کچھ نہیں ۔۔۔ کائنات و ماورائے کائنات
مومن نے کہا تھا:
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا  ۔۔۔  جب کوئی دوسر انہیں ہوتا
نیّر نے اس مضمون کو کچھ یوں ادا کیا ہے:
وہ مرے سامنے نہیں ہوتے ۔۔۔ میں خود اپنے حضور ہوتا ہوں
اور نیّر کے اس شعر میں کیا غالب کے مخصوص لب و لہجہ کا عکس نظر نہیں آتا؟
کبھی مجاز بھی ہے آیئنہ حقیقت کا ۔۔۔ کبھی حقیقت کونین نقش مبہم ہے
نیّر صاحب کو بڑی قدرت کلام حاصل تھی۔ عربی و فارسی پر دسترس ہونے کی وجہ سے لفظیات پر مکمل عبور تھا۔ ہر موقع اور ہر موضوع کے اعتبار سے الفاظ کا  انتخاب ان کے لئے بڑا کام نہ تھا۔ نئی نئی تراکیب لفظی ان کی شاعری میں جگہ جگہ ملتی ہیں۔ مثلا ان کا ایک شعر ہے:
عشق کا میکدہ  ہےاور جلوہ ساقی ازل ۔۔۔ میرا سرور جاوداں میری شراب بے خلل
 اس شعر میں " شراب بے خلل " نیّر صاحب کی اختراع پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان کے ایک شعر میں آنسوؤں کو " جبرئیل غم پنہاں" کہا گیا ہےشعر یہ ہے:
درد آسودہ اقصی اگر ایماں ہوگا ۔۔۔  جبرئیل غم پنہاں سر مژگاں ہوگا
شاعری میں نیّر مدنی کے ان گنت  شاگرد تھے جن میں سے چند نے انکی شاگردی کوباعث فخر جانا مثلا اشفاق کانپوری، وفا کانپوری، ریاض سیالکوٹی، عالم عظیم آبادی اور فضل گوالیاری۔ ان حضرات نے اپنے مجموعہ ہائے کلام اور ذاتی کتابوں اور تحریروں میں نیّر صاحب کی شاگردی پر برملا فخر کا اظہار کیا ہے۔ نیّر صاحب کا کلام جو ہزاروں صفحات پر پھیلا ہوا ہے ہنوز تشنۂ طباعت ہے۔