Wednesday, July 28, 2010

نیرمدنی کے انتقال پرزعماء کے تاثرات وپیغامات

سلیم احمد
نیر مدنی کے انتقال کے محض دو ہفتے بعد ہی ممتازنقاد اورشاعر سلیم احمد بھی اس دنیائے آب وگل سے رخصت ہوگئے تھے۔ جناب نیر مدنی کے انتقال پر انہوں نے تعزیتی پیغام میں کہا تھا؛
"جناب نیرمدنی سے ملنے کے بعد ایک ایسی خوشبو سی محسوس ہوتی تھی جو اب ملنی مشکل ہے۔ ان سے گفتگو کرکے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسا کہ کسی بڑے عالم اوربزرگ شاعر سے ہم کلام ہوں۔ نرم لہجے میں ان کی پاکیزہ گفتگو کی آوازمیرے کانوں میں اب بھی رس گھول رہی ہے، انکا اخلاق، انکی سادگی اورانکی پاکیزہ خیالی کی میں جتنی تعریف کروں کم ہے۔ بحیثیت شاعر وہ بہت بلند تھے، ان کےکلام میں پختگی تھی، انکا کلام تصوف میں ڈوبا ہوا تھا۔ عارفانہ شعر کہتے تھے۔ انہیں ہرصنف سخن پرعبورحاصل تھا اور انتہائی قادرالکلام استاد فن تھے۔ وہ ایک روایتی شاعر ہونے کی وجہ سے بھی عمر بھر دین پرقايم رہےکیونکہ انکا تعلق روایتی معاشرے سے تھا۔ روایتی شاعری سے دراصل وہ شاعری مراد ہے جوروایتی اقدار اورروایتی رویوں کی حامل ہو۔ نیر صاحب شايد اسی وجہ سے معاشرے میں اجنبی بن کررہ گئے تھے کہ وہ پرانی وضع داری اورروایات کے حامل تھے اورخودداری بھی ان میں بہت تھی۔ نیر صاحب اچھے سخن گو ہی نہیں بہت اچھے سخن فہم بھی تھے۔ انہیں سن کر ہمیں اصغر اورجگر یاد آتے تھے، نیراس قبیل کے آخری شاعر تھے جو اب نہ رہے۔ اللہ انہیں اپنے دامن رحمت میں جگہ دے اورلواحقین کو صبر جمیل غطا فرمائے۔ آمین "

ڈاکٹرسید یاورعباس
ڈاکٹرسید یاورعباس مرحوم جناب نیر مدنی کےقریبی اوردیرینہ دوستوں میں سے تھے۔ نیر صاحب کی وفات پر اپنے پیغام میں ڈاکٹر یاور عباس نے کہا؛
"جناب نیر مدنی مرحوم پر کچھہ لکھنے کی ابتدا انا للہ وانا الیہ راجعون سے کرنے کے بعد یہ مصرعہ پڑھنا خلاف موقعہ نہ ہوگا کہ
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نیر صاحب میرے پرانے دوست اورترویج اردو کے معاملات میں میرے پرانے ساتھی تھے۔ متحدہ اردو محاذ میںوہ میرے دوش بدوش رہے۔ غزل ، نعت اور سلام کی محفلوں میں ساتھہ رہا۔ اچھے انسان، اچھے مسلمان اوراچھے دوست تھے۔ سوچ سمجھہ کر شعر کہتے تھے جس میں گہرائی کے ساتھہ خوبصورتی بھی ہوتی تھی۔ ہاں! مگر اپنے دوست حضرت کرارنوری کا یہ مصرعہ ہروقت میرے جاگے ہوئے شعور میں رہتا ہے؛
کیا جانئے بحر ہستی میں کب موج اٹھے کب بہہ جایئں
نیر مدنی صاحب کی یاد میں یہ چند مصرعے کسی شاعر کے بار بار یاد آتے ہیں؛
اک  یار با وفا  تھا    اک  مرد باوفا  تھا
محفل میں دوستی کی  اک رند پارسا تھا

اللہ مغفرت فرمائے۔ آمین

پیرزادہ عاشق کیرانوی 
زندگی اپنی جن علامتوں، ضوکاریوں، شیرازہ بندیوں اورافکارونظریات کی ہمہ گیریت کی وجہ سےممتاز نظر آتی ہے ان میں شاعری کو جو فوقیت حاصل ہے وہ کسی اور فن کو میسر نہیں۔ شاعر اپنے اطراف و جوانب سے جسطرح متاثر ہوتا ہے اورجس انداز سے اسکو معاشرے کے سامنے پیش کرتا ہے وہ اسی کا حصہ ہے۔ ہزاروں واقعات ایسے ہیں جنہیں ہم صرف شاعری کی وجہ سے جانتے ہیں اور پرکھتے ہیں۔ لاتعداد افراد ہزاروں سال گذرنے کے بعد بھی نہ صرف اپنی حیات کا ثبوت دے رہے ہیں بلکہ ہم انکو انکی آنکھوں سے چلتا پھرتا دیکھتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے
رشک  اعجاز   مسیحا   ہے  کلام    شاعر
سیکڑوں سال کے مردے کو جلا رکھا ہے
جناب نیرمدنی کا بھی ایسے ہی افراد میں شمار کیا جائے گا جنہوں نے نہ صرف اپنی شاعری اور پاکیزہ سیرت وکردار سے ماحول کو متاثر کیا بلکہ اپنے بعد ایک بہت بڑی تعداد ایسے شاعروں کی چھوڑ گئے جو اس چراغ کو روشن رکھیں گے۔ جناب نیرمدنی کی پوری زندگی اس پودے کو پروان چڑھانے میں بسر ہوگئی۔  انہوں نے اسقدر تعداد میں شعر کہے کہ انکا شمار میں آنا مشکل ہے۔ مجھے امید ہے کہ جناب نیرمدنی کے تلامذہ اس سرمائے کی حفاظت کریں گے جو وہ چھوڑ گئے ہیں۔

جناب   نیر مدنی   بڑے    شاعر  بڑے   عالم
جہاں میں جن کےعلم وفن کا ہرسوبول بالا ہے
ہر اک  شاعر کو ان  کا عہد زریں یاد  آئے  گا
مقام   شاعری  ان  کا  بڑا ارفع  ہے اعلی  ہے 
(آئندہ پوسٹ میں ملاحظہ فرمایئں  جناب تابش دھلوی اور جناب ثاقب انجان کے پیغامات)