Saturday, June 5, 2010

نیرمدنی


اگراشعارمیں پاکیزگی ھو تونیرشاعری پیغمبری ھے
نیرمدنی ھندوپاکستان کے معروف شاعر اور تحریک آزادی کے ایک ممتازرھنما 12 اگست 1983 کو کراچی میں انتقال کیا- نیرمد‏نی کا اصل نام سید محمد مد‏نی تھا جبکہ نیّران کا تخلص تھا۔ انکا آبائی وطن موضع بہادرپورضلع الہ آباد ہے جو انڈیا کے صوبے یوپی میں واقع ہے۔ وہ 1913 میں پیدا ہوئے اورجب انکی عمر د‏س سال تھی تو ان کے والد الہ آباد کی سکونت ترک کرکے بسلسلۂ روزگارکانپور آگئے۔ نیرمد‏نی کے والد سید محمد حسین رحمتہ اللہ علیہ ایک جید عالم تھے۔ انہوں نے نیرمد‏نی کوابتدامیں عربی، فارسی حدیث اور فقہ کی تعلیم دی اوراسکے بعد انہیں برصغیر کے عظیم دینی تعلیم کے ادارے دارالعلوم دیوبند بھیج دیا جہاں مولانا اشرف علی تھانوی رح کی نگرانی میں دینی تعلیم کے حصول کا آغاز کیا۔ غارغ التحصیل ہونے کے بعد رسم دستاربندی سے چند روزقبل سید محمد حسین کا انتقال ہوگیا جس کے بعد نیرمدنی نے انہی کی جگہ مسجد کا‏نپورٹینری میں جومحلہ بھّنانہ پورہ میں تھی امامت و خطابت کا منصب سنبھالا۔ اس وقت نیرمد‏نی کی عمرمحض انیس سال تھی۔
نیرمد‏نی نے باقاعدہ شاعری کا آغاز1933 میں کیا جب انہوں نے اپنا پہلا طرحی مشاعرہ پڑھا اورطرحی غزل کے اس شعر پربے پناہ داد وصول کی؛
پایا  مجاز ہی سے حقیقت کا راستہ
مجھہ کومذاق عشق نے انساں بنادیا
اس کے بعد نیرکی شاعری مقبول ہوتی گئی اورکانپور، لکھنؤ، قنوج وغیرہ کے تقریبا ہر مشاعرے میں انکی شرکت لازمی سمجھی جانے لگی۔ انکی غزلیں، نظمیں اورقطعات کانپورکے بڑے اخبارات وجرائد قومی اخبار، صداقت اوربیدار میں باقاعدگی سے شائع ہوتے تھے۔
نیرمد‏نی بنیادی طورپرغزل کے شاعرتھے۔ انہوں نے باقاعدہ کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی تاہم وہ اصغرگونڈوی کو اپنا معنوی استا‏د قراردیتے تھے۔ سنہ 1935 میں جب تحریک آزادی زوروں پر تھی اس وقت نیرجوان تھےاوربڑے زوروشور سے انقلا‏بی نظمیں کہتے تھے، چنانچہ جب لکھنؤمیں آل انڈیا نیشنل کانگریس کے زیراھتمام سالانہ مشاعرہ منعقد ہوا جسکی صدارت بلبل ھند سروجنی نایئڈو نے کی تھی تو سروجنی نایئڈ‏ونے شعراء کی ترتیب کا خیال کئے بغیرنیرمد‏نی کی نظم 'غلامی' پہلے سننے پراصرار کیا۔ اس زمانے میں نیرکی یہ نظم ھندوستان کے طول وعرض میں بہت مقبول تھی۔ جب یہ نوجوان شاعرنظم پڑھہ کراترے تواصغرگونڈوی نے پوچھا کہ میاں کس کے شاگرد ہوتو نیرنے برجستہ جواب دیا کہ حضور آپ ہی کا شاگرد ہوں۔ اصغراورحسرت موہانی ساتھہ بیٹھے تھے، اصغر نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مجھے تویاد نہیں کہ تم کبھی بغرض اصلاح میرے پاس آئے ہو۔ نیر نے اقرار کرتے ہوئے کہا کہ جناب کے رنگ میں غزل کہنے کی کوشش کرتا ہوں اوراسی رنگ نے مجھے آپ کا شاگرد بنادیا ہے۔ حسرت موہانی اس گفتگو سے بہت محظوظ ہوئے اوراصغر سے مخاطب ہوکر بولے کہ بسم اللہ! ایسے شاگرد کہاں نصیب ہوتے ہیں۔ اصغرگونڈوی نے کسب کمال کن کہ عزیزجہاں شوی کہتے ہوئے نیرمدنی کواپنا شاگرد لکھنے کی اجازت دے دی۔ اصغر سے نیر کی یہ پہلی ملاقات تھی جو آخری بھی ثابت ہوئی۔ اس پہلی اورآخری ملاقات میں نیر نے برجستہ یہ شعرپڑھا؛
مبارک حضرت اصغر کا فیض باطنی نیّر
ترے نغموں میں  کیف بادۂ الہام پاتا  ہوں
حوالہ: روزنامہ حریت کراچی، 23 ستمبر 1969
تقسیم برصغیرکے بعد نیرمد‏نی پاکستان آگئے۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ھمراہ 1950 میں موناباؤ کی سرحد عبورکرکے سندھہ کے قدیم تاریخی شہرٹھٹھہ پہنچے۔ چند ہفتے ٹھٹھہ میں قیام کے بعد وہ کراچی آگئے۔ کراچی آنے کے بعد انہوں نے تعلیم وتعلم اورقرآنی تعلیمات کی ترویج کواپنا مقصد حیات بنالیا۔ انہوں نے اپنا مرکز ایک ایسی بستی کو بنایا جہاں تعلیمی سہولتوں کا فقدان تھا،جہاں لوگ کسب معاش کوہی زندگی سمجھنے پرمجبورتھے۔ نیرنے گولیمارنامی اس بستی میں جواب گلبہار کے نام سے مشہورہے ایک مسجد کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے اس طرح اپنے اجداد کی اس سنت کو بھی زندہ کیا کہ وہ جہاں جاتے تھے مسجد کی بنیاد ضرورڈالتے تھے۔ قادریہ مسجد نامی اس مسجد میں نیرمد‏نی نے خود اذان و نمازکا اہتمام کیا، مسجد کی توسیع، تعمیراورآرائش کواپنے ذاتی آرام وآسائش پرفوقیت دی۔ تاہم شعروشاعری کا سلسلہ اورادبی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ نیّرسمجھتے تھے کہ اردوزبان وادب کی خدمت بھی ان کے فرائض کا ایک جزوہونا چاہئے۔ اسی خیال کے تحت انہوں نے ایک بزم ادب قائم کی۔ اس بزم کے تحت ہونے والے مشاعروں میں شہرکے معروف شعرائے کرام اوراہل ذوق باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے معنوی استاد کوخراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اس بزم کو' بزم اصغر' کے نام سے موسوم کیا۔ 1961 کے اوائل میں نیرمدنی گلبہار سے ناظم آباد منتقل ہوگئے اور کچھہ ہی عرصے کے بعد یہاں سے کنٹری کلب روڈ جو اب یونیورسٹی روڈ کہلاتا ہے پر واقع سوئی گیس ٹرانسمیشن کمپنی بسلسلۂ ملازمت منتقل ہوگئے۔ نیّرنے یہاں بھی کمپنی کی مسجد میں امامت وخطابت کا منصب سنبھال لیا۔ تاہم نیرکا مزاج ملازمت سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ 1964 میں انہوں نے ملازمت ترک کردی اورایک بار پھرقادریہ مسجد کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ اسکے ساتھہ ہی انہوں نے کراچی کے ایک معروف اسکول حالی مسلم اسکول میں درس وتدریس بھی شروع کردی۔
اردوزبان کی ترویج کیلئے بھی نیرمد‏نی نے بے بہا خدمات انجام دیں۔ اوائل 1970 میں انہوں نے اپنے دوستوں ڈاکٹرسید یاورعباس، اورسید آل رضا کے ساتھہ مل کرمتحدہ اردو محاذ کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کا مقصد اردوزبان کوپاکستان میں سرکاری دفاترمیں رائج کرانا،اور اسے اعلی سطح تک ذریعۂ تعلیم بنانا تھا۔ متحدہ اردومحاذ کے تحت جام جم کے نام سے ایک ادبی رسالے کا بھی اجراء کیا گیا جس میں فلسفہ ، تصوف اور ادب کے موضوعات پرنیرمد‏نی کے مضامین اردوادب میں ایک گرانقدرخزانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مسئلہ جبروقدرکے موضوع پر پرنیرمد‏نی کا ایک مضمون اعلی اد‏بی حلقوں میں بےحد سراہا گیا۔
نیرمدنی وسیع المشرب انسان اورلااکراہ فی الدّین کے قائل تھے۔ وہ مجا‏لس عزاء میں سلام بھی پڑھتے تھے، اورمحافل مناقب میں خلفائے راشدین کی منقبت میں بھی حق عقیدت ادا کرتے تھے۔ جمعے کی نمازمیں دیئے گئے انکے خطبات نہ صرف د‏ینی حوالوں سے اہم ہیں بلکہ یہ اردوادب، فلسفے اورعلم الکلام کے بھی اعلی شاہکارہیں۔ انکے مواعظ میں نہی عن المنکراورامربا المعروف کا ذکر ہوتا تھا۔
نیرمد‏نی کی شاعری: نیرمدنی قد‏یم اساتذہ میں غالب، اقبال، جگر، اورفانی سے متاثرہیں۔ ایک انٹرویومیں انہوں نے کہا کہ 'غالب کا علو، اقبال کی آفاقیت، اصغر کا لہجہ اور اسکی پاکیزگی، جگر کی مستانہ روی اورفانی کا آرٹ، یہ ہیں وہ خصوصیات جنہوں نےمجھے ان کا گرویدہ بنادیا'۔

No comments:

Post a Comment